غزل
آباد ہے ہر طرف گوشہ ء تنہا کہاں سے لاؤں
وقت کی رفتار کے ساتھ اڑان بھرنا چاہا
کٹے پروں میں وہ اڑان کہاں سے لاؤں
حسن جاناں کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگے
صبر و استقلال کی تب گھڑی کہاں سے لاؤں
خیال کیاسیاست کے کھیل میں حصہ لے لوں
میداں میں خود کے ظرف کوکہاں سے لاؤں
زمانے کو دیکھا بن کر تماشائی تبسم نے
بکمٌ نہیں پر آنکھ کی زباں کہاں سے لاؤں
ف۔ت