‎اک تیری رفاقت ‏ (‏قسط٣ )‏



چلو امی تو مجھے سمجھتی ہیں آخر کو ماں ، ماں ہی ہوتی ہے وہ اولاد کے دل کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہے . امی !جی بیٹے ! یہ بے جا رسم ورواج کیوں ؟ سادگی سے کر دیں ناں بیٹے کی بات سن کر رئیسہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا دیکھو بیٹا شادی ایک بار ہوتی ہے باربار تھوڑی اب بے جا رسم ورواج کی میں بھی مخالف ہوں مگر جو ہمارے پر کھے ہمارے اسلاف کرتے ہوئے آرہے ہیں ہمیں بھی تو اس سلسلہ کو قائم رکھنا ہے ناں اورہاں بھیا ! آپ بے فکر رہیں بھا بھی کے گھر والوں کو زیاده خرچہ نہیں آئیگا نرگس نے ہنستے ہوئے بیچ میں ہانگ لگائی. آپ کو ہی زیادہ بھاری پڑے نگی یہ تمام رسومات کیا مطلب ؟ منصور بہن کو گھور کر دیکھتا ہوا سوال کر بیٹھا ہاں بھیا آپ دیکھتے جائیے ایک ایک اسٹیپ میں جيب خالی ہوتے جائے گی . ارے باپ رے تو نا ذرا مجھ سے دور ہی رہ پتہ نہیں کب کونسا بم ڈالے گی . نرگس ، ماں بیٹا تینوں ہنس دیئے 
    آج چھوٹا منجہ ہے مگر دیکھو سب اچھی طرح بن سنور کر رہنا ماں کی تحکمانہ باتوں کو سب لڑکیاں گوش گزار کررہی تھیں جی ہاں وہ ویڈیو گرافر کو کال کرلو اور کیٹرنگ والے کو بھی بھیا کو کال کرنے کو کہو جی امی نرگس بھاگ بھاگ کر آگے آگے ماں کو ہاتھ بٹار ہی تھی .
 گھر کی ساری لڑکیاں اور ماں نے منصور کو چھوٹا منجہ بیٹھا کر خوب ہلدی لگادی اور ڈھولک کے گیت بھی شروع ہوگے
   
  بھیا میرے ہوگئے بھابھی کے دیوانے رے الله۔ 
 ابھی بھابھی آئی ہی کہاں بر جیس نے مسکراکر نرگس کو گھورا. ارے آپ بھی دیدی تین دن باقی ہے پھر تو آجائیں گی ناں چلو اب بس بھی کرو میرا بچہ تھک گیا ہے ماں نے ڈانٹتے ہوئے سب کو خاموش کرادیا 
  آج تو بڑا منجہ ہے صبح ہو جائے گی پھر سانچق بھی لے جانا ہے انگلی کی رسم بھی ہے مجھے تو ہر ایونٹ کے لئے ڈ رییس نکال لینے ہیں سب کی یہی گڑبڑ تھی 

   آخر کو وہ گھڑی آگئی جس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا آج منصور کا نکاح تھا . وہ بھی دل میں بہت خوش تھا . آج وه بھی کسی کا ہونے جارہا تھا . کیسی ہوگی وہ اسکی آواز کیسی ہوگی. پتہ نہیں آج میرا دل کیوں اتنی زور زور سے دھڑک رہا ہے . يا الله سب خیر کا معاملہ فرما ـ وہ انھیں خیالوں میں گم تھا . کہ رئیسہ بیگم آکر اس کو آواز دینے لگی . بیٹے ذرا جلدی تیار ہوجانا سب کام وقت پر انجام کو پہنچے تو بہتر شگون ہوگا . جی امی وه جھٹ اٹھ بیٹھ گیا
 رات بہت ہوگی چلو بچیو دلہن کو کمرے میں لے جاؤ ماں کی ہدایت پر بڑی بیٹی بلقیس نے عائشہ کو کمرے میں لے جانے والی ہی تھی کہ اچانک ایک اور رسم یار آئی ارے بھیا اور بھا بھی کے پیر دھونا ہے چلو جلدی سے ڈش اور پانی لالو برجیس نے دوڑ کر لے آئی اب دیجے کیا ؟ منصور مسکراتا ہوا انجان بن بیٹھا. اماونٹ کیوں ارے ہم پیر دھولائی کرے تو میں نے کب کہا وہ ہنس دیا! دے دے بیٹا جو بھی بن پڑے ماں نے شفقت سے کہا وہ پانچ ہزار جیب سے نکال کر دے دیا    اب تو لے جاؤ دلہن کو ہاں چلو بڑی نند بلقیس نے عائشہ کو بازو سے اٹھا کر جیسے ہی حجلہ عروسی کا رخ کیا چوکھٹ پر نرجس کھڑی تھی دلہن کو آنے کا راستہ دے دی . اب جاؤ بیٹے رئیسہ بیگم مسکراتی ہوئی بیٹے سے کہنے لگی . وہ اندر جانے کے لئے آگے بڑھا ہی تھا کہ نر جس نے راستہ روک دیا یہ کیا ؟ اب کیا ہے بھئی اور ہے بھئی وہ قہقہہ لگاتی ہوئی بھائی کو دیکھنے لگی . اندر جانے کی فیس دینی پڑے گی بھیا ! افوه یہ بھی ہے تو لے لو وہ پھر سے پانچ ہزار نکال کر بہن کے ہاتھ پر رکھ دیا اب بس بھی کرو کیا مجھے سب ملکر کنگال کردو گے . ارے فل رچ پارٹی ہے بھیا اندر جائیے وہ مسکراتی ہوئی راستہ دے دی 
  ( جاری ہے).
 (  باقی آئندہ)
 
 ( فہمیدہ تبسّم ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ)

Popular Posts

نساء

‎ ‎غزل ‏ ‏١٠

رباعیات ‏ ‏[امجد حیدر آبادی]