رباعیات ‏ ‏[امجد حیدر آبادی]



 ١)  نہ مال ہے نہ سرمایہ ہے
مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لایا ہے
تیری رحمت کے بھروسہ امجد
بند آنکھ کے یوں ہی چلا آیا ہے

  ٢)  تو نام کا دریا ہے روانی نہیں رکھتا
بادل ہے وه بے فیض کہ پانی نہیں رکھتا
یہ آخری خط آخری تصویر بھی لے جا
میں بھولنے والوں کی نشانی نہیں رکھتا

 ٣)  سجده میں جب انہماک ہوجاتا ہے
نفس سرکش ہلاک ہوجاتا ہے
مسلم کے لئے عجیب نعمت ہے نماز
سرخاک میں رکھ کے پاک ہوجاتا ہے

 ٤)  ہر چیز مسبب سبب سے مانگو
منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے رب سے مانگو

  ٥)  ہر چیز کا کھونا بھی بڑی دولت ہے
بے فکری سے سونا بھی بڑی دولت ہے
افلاس نے سخت موت آسان کردی
دولت کا نہ ہونا بھی بڑی دولت ہے



   

Popular Posts

نساء

‎ ‎غزل ‏ ‏١٠