‎منزل پر پہنچ کر



  

پھولوں سے سجائی گئی کار میں روبی کی رخصتی ہوگئی. اب وہ چین کی نیند سونا چاه رہی تھی . زندگی کے سفر کی طویل مسافت طے کرکے وہ منزل مقصود تک پہنچ چکی تھی . اسے اب کسی بات کی کوئی فکر یا پریشانی نہیں تھی وه ہر طرح سے بری ہو چکی تھی 
  
بستر پر سونے کے ارادے سے لیٹ گئی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور کھڑی مسکرارہی تھی یہ نیند بھی عجب چیز ہے جب سونا چاہتے ہیں تو آتی نہیں اور جب ہم جاگنا چاہتے ہیں تو ایسے مجبور کردیتی ہے کہ مجبوراً ہم کو اس کی بات مان لینی پڑ جاتی ہے ریحانہ بھی اس وقت سونا چاه رہی تھی مگر نیند نہیں آرہی تھی . وه آنکھیں موندے پڑی رہی اچانک اس کی آنکھوں میں تیس سال پہلے کا بھیانک منظر آگیا ۔ وہ المناک حادثہ اور پھر دو اموات وه گھبرا کر اٹھ بیٹھی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں حلق خشک ہوتا محسوس ہونے لگا وه اٹھ کر برآمدے میں آگئی اور جلدی سے پانی کا کلاس منہ سے لگالی. یہ مجھے آج اس طرح گھبرا ہٹ کیوں ہو رہی ہے ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا وہ سوچتی ہوئی دوباره اپنے کمرے میں آگئ اور ڈر سینگ ٹیبل کی دراز سے تصویر نکال کر بغور دیکھنے لگی جس میں اس کے والدين کھڑے مسکراہٹ بکھیر رہے تھے تصویر کو سینے سے لگاکر وہ زاروقطار رونے لگی . " ابو ، امی "آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ میں اکیلی ہوگی ہوں آپ لوگ ہم سے کیوں روٹھ گئے ہمیں کس کے سہارے چھوڑ گے وہ تصویر سے باتیں کررہی تھی اور آنسو ہیں کہ تھم نے کا نام نہیں لے رہے تھے .

  اسے اچھی طرح یاد ہے اور وہ کیسے بھول سکتی ہے اس منحوس دن کو جو ان چار بہنوں پر بجلی بن کر گرا تھا جب ریل کے المناک حادثہ میں اس کے ابو امی بھی شکار ہوگے تھے . وہ لوگ کسی دوست کے لڑکے کی شادی میں جانے کے لئے ریل کا سفر کررہے تھے جب اخبار میں اس حادثہ کی خبر پڑھی تو وہ بے ہوش ہوگئی تھی باقی تین بہنوں پر کیا بیتی اس کا اسے ہوش تک نہ رہا۔ جو گھر ہنستا کھیلتا رہا وہ چند لمحوں میں ماتم کا میدان لگ رہا تھا . ہر آنکھ رورہی تھی . پھر وقت نے اچھی طرح سے رونے بھی نہ دیا اپنے پرائے سب دلاسے دیتے رہے لیکن دلاسوں سے کوئی کب تک جی سکتا ہے ۔ آخر کو زندگی انہیں گزارنی تھی لہذا ابو کی جاب اسے مل گئی۔ ابو ایک سرکاری ملازم تھے وہ انٹر پاس کرچکی تھی ۔ یوسف مامو نے ہر طرح کوشش کرکے اسے ابو کی جگہ دلوادی بھلا ہو مامو جان کا جن کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی ورنہ کہاں کہاں دربدر بھٹکنا پڑتا 

  ریحانہ سونچنے لگی اگر میں نے ہمت سے کام نہ لیا ہوتا تو الله جانے کیا ہوتا میں اپنی جاب کو برقرار رکھتی ہوئی زندگی کے نئے موڑ پر قدم جمانے لگی کچھ ہی عرصہ بعد میری نوکری مستقل ہوگئی ممانی جان نے مجھے اپنی بہو بنانے کا اراده ظاہر کیا اس وقت میرے سامنے دو راستے تھے ایک وہ جس پر چل کر مجھے ازواجی زندگی کی خوشیاں ملنے والی تھیں ، دوسرا وہ جس پر مجھے ہر وقت ہر قدم پر ایک امتحان سے گزرنا تھا جس پر چلکر مجھے اپنا فرض نبھانا تھا میں فیصلہ کرنے سے گھبرا رہی تھی لیکن فیصلہ تو بہرحال کرنا تھا ذرا سوچئے عورت کے دل میں کتنی خواہشات اور آرزوئیں ہوتی ہیں وہ صرف ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے . عورت ہمیشہ اپنے دلی خواہشات کو اور اپنے حسین خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا سونچتی ہے ۔ لیکن عورت کا دوسرا روپ ہم دیکھیں گے تو ہمیں اس سے زیادہ ہمدرد اور ایثار ومحبت کی دیوی کہیں نظر نہیں آئے گئ کون کہتا ہے کہ عورت مفاد پرست اور کمزور ہوتی ہے وہ تو ہمیشہ اپنوں کے لئے جینے والی ہوتی ہے .

  مجھ پر اُس وقت ا پنوں کے لئے اپنی زندگی قربان کرنے کا جذبہ ابھر آیا . میرا ضمیر مجھ سے کہنے لگا کہ ریحانہ کیوں تو اپنی زندگی جینے کا سوچ رہی ہے دوسروں پر اپنی زندگی اور اپنے تمام تر آرزووں کو نچھاور کردے۔ اپنے لیے جینا کوئی جینا ہے . دوسروں کے لئے جینا ہی زندگی کا سب سے انمول پھل ہے اور اسی میں خوشی مضمر ہے۔ میں نے زیاده سونچنا مناسب نہیں سمجھا اور ممانی جان کو اپنا فیصلہ سنا ڈالا یہی کہ مجھے شادی نہیں کرنی ہے ـ کیونکہ میری تین بہنوں کی ذمہ داری اب مجھ پر ہے ہمارا کوئی بھائی تو ہے نہیں اسی لئے بہتر ہوگا کہ آپ اپنا ارادہ واپس لے لیں ۔ اس فیصلے کے بعد میرے دل کو جو راحت ملی وہ شاید میں ہی جانتی ہوں . میرے اس فیصلے سے سارے خاندان میں چہ منگویاں شروع ہوگئیں . رشتے داروں کی بات مت پوچھئے جہاں ہر نیکی میں پیش پیش ہو جاتے ہیں وہیں بدی میں بھی اپنا کردار بخوبی نبھاتے ہیں، میری ملازمت کرنے اور شادی نہ کرنے کے فیصلے سے سارے خاندان میں جیسے بم گر پڑا بڑی پھوپی کہنے لگیں " عورت شادی کرکے گھر بسائے یہی بہتر ہوگا " . "تائی جان کا تجربہ تھا کہ عورت ذات نوکری کرے بھلا یہ کیا عقل مندی ہے ضرور دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے " بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں اگر ان باتوں کو ہم سن نے بیٹھ جائیں تو نہ دن کافی ہوگا نہ رات میں نے بھی ان باتوں پر دهيان نہ دیا اور اپنے یقین کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔

   بہنوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا یہی نہیں ان کو کسی قسم کی کمی محسوس نہ ہونے دی ۔ پھر کیا تھا . پہلے ثمینہ کو بياه کر ایک سیڑھی آگے بڑھی اسلم جو ثمینہ کا شوہر ہے بہت ہی نیک اور شریف لڑکا ہے ثمینہ بھی سلجھی ہوئی لڑکی ہے دونوں میں زہنی ہم آہنگی ہے 

  رومانہ جو ثمینہ کے بعد کی ہے امور خانہ داری میں ماہر ہے اس لئے میں نے اسے پکوان کا کورس کروایا اور وه مہندی کےڈیزائن بھی اچھے ڈال لیتی ہے ۔ مجاہد نے اسکا ہاتھ مانگا جو ایک محنتی اور قایل لڑکا ہے جس کا اپنا ذاتی کاروبار ہے زندگی کے دکھ سکھ میں دونوں برابر شریک رہتے ہیں انکی زندگی بھی خوشحال گذر رہی ہے 

  روبینہ جو چھوٹی ہونے کے ناطے کافی شریر اور لاڈلی بیٹی تھی اسکو میں نے اپنی بیٹی کیطرح پالا وه میری بہن کم اور بیٹی زیاده ہے ، روبی ہمیشہ کلاس فرسٹ آتی ہے . یہی نہیں وه ایک بہترینfashion Designer بھی ہے ۔ الیاس جو اسکا دولہا ہے وہ مجھ سے وعده کرگیا ہے کہ شادی کے بعد وہ روبینہ کو اپنے پیشے سے الگ نہی کرے گا بلکہ وہ مدد کرے گا ـ

  ان تینوں کو اپنے اپنے گھروں کا کرکے آ ج میں بے حد خوش ہوں مجھے آج کوئی فکر نہیں ، ہاں البتہ ایک تبدیلی مجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ میں منزل تک پہنچتے پہنچتے تھک گئی ہوں اور اعضاء کمزور ہوگئے ہیں ۔ سر میں کہیں کہیں چاندی کے تار جهلمل کر رہے ہیں .. آج تک تو میں دوسروں کا سہارا بنتی رہی ہوں سوچتی ہوں آگے میرا سہارا کون بنے گا. مجھے اب محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر چاہے وہ مرد ہو کہ عورت سہارے کی ضرورت ضرور آن پڑتی ہے اسی خیال میں کھوئی تھی کہ فجر کی اذان کی آواز آنے لگی . خدا !! ہاں خدا ہی میرا سب سے بڑا سہارا ہے میں نے اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردیا میرا دل خوشی سے مسرور ہو اٹھا اور میری روح کو تسکین مل گئی میں نماز ادا کرنے کے لئے اٹھ بیٹھی ...

(فہمیدہ تبسّم ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ حیدرآباد)


Popular Posts

نساء

‎ ‎غزل ‏ ‏١٠

رباعیات ‏ ‏[امجد حیدر آبادی]