غزل ۹



میری تحریر کی قیمت مجھے ہی چکانی ہو گی
تیرے پڑھنے سے کیا سمجھا نی تومجھے ہی ہوگی

جسم میں روح اور روح میں بھی جان ہوتی ہے
روح ہی نہیں جان کے اندر بھی تیری رسائی ہوگی

زمانہ تو یوں ہی کہہ دے گا کسی کو کچھ بھی
جب باری آتی ہے ہماری تو جگ ہنسائی ہوگی

ٹوٹتے تارے سے ہماری بھی امیدیں بندھ گئی
 آسمان پہ آج  دعا کی ہماری  سنوائی  ہوگی

سمندر کی گہرائیوں میں اترنے کی حماقت  نہ کر
وہ ساحل نہیں جو تیری کناره کشی ہوگی

تیراساتھ ہے تو راہیں آساں اتنی بھی نہیں
خیال تیرا کہ سفر میں تجھ سے دلجوئی ہوگی

آنکھوں میں اميد دل میں امنگ ہونٹوں پہ تبسّم
انتظار میں  تیرے آنےکہ   تکتی کوئی کھڑی ہوگی

(فہمیدہ تبسّم ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ)






Popular Posts

نساء

‎ ‎غزل ‏ ‏١٠

رباعیات ‏ ‏[امجد حیدر آبادی]