لت لگنا جس کے معنى ہوتے ہیں کسی برےکا م کی عادت پڑجانا ، دھن سوار ہونا ، چسکا ، خصلت وغيره .
اللہ تعالٰی نےانسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اب جبکہ ہم شرف امتیازکے حامل خود کو مانتے ہیں تو ہماری ذمہ داریاں بھی بہت انمول اور قیمتی ہونی چاہیے ،حقوق اللہ اور حقوق العباد دو طرح کی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہیں . اگر انسان حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کو خوش اسلوبی سے نبھاتا چلے گا تو سماج یا معاشره میں پیدا ہونے والی برائیاں ساری کی ساری مٹ سکتی ہیں ، یہاں پر اکثر لوگ حقوق اللہ تو ادا کر لیتے ہیں لیکن حقوق العباد کے معاملے میں بہت لاپرواہ ثابت ہو جاتے ہیں اور اس اہم ذمہ داری کو نظر انداز کرنا ہی " لت "جیسی سماجی بیماری یا برائی کو جنم دینا ہے .
 یہ ایک ایسی عادت ہوتی ہے ، اس لفظ کو برے فعل کی انجام دہی کو روز مرہ کی زندگی سے منسوب کیا جا سکتا ہے . اور اس لفظ کی ادائیگی کو کبھی کبھی تو کسی بد دعا کے مماثل قرار دیا جاتا ہے ، جب کبھی بھی اس لفظ کو ادا کرتے ہیں تو سننے والا پورا نہ سہی کچھ تو متاثرضرور ہوتا ہے ، عام زندگی میں ہم اس لفظ کو بری عادتوں کی نشاندہی کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسے کہ " شراب نوشی کی لت لگ گئ ہے " ، " سگریٹ نوشی کی لت لگ گئی ہے " ، گٹھکا کھانے کی لت لگ گئی ہے " یہ تو انسان کے شوق کے بارے میں صريحتاً بیان کیا گیا . جہاں پر خاندان سے منسوب ذمہ داریوں سے خود کو بری الزمہ قرار دینے اور اپنے شوق کو پورا کرنے کے لئے لوگ بری اور واہیات قسم کی عادتوں کو اپنا لیتے ہیں جن کی وجہ سے خاندان بکھر رہے ہیں تباہ و برباد ہورہے ہیں اسی کے نتیجہ کے طور پر ہمیں سماجی برائیاں سامنے دیکھنے کو مل رہی ہیں . اخلاقی پس منظر دیکھا جائے تو ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ " جھوٹ " "سينما " "بری گالیاں " " ، لڑکیوں کے پیچھے جانے کی لت لگ گئی ہے ، یہ وہ عادتیں ہیں جس کو آج بچہ بچہ بڑوں کی قابل تقلید مثال کے طور پر شان سے اپنا رہا ہے اور گھر ہی نہیں مدارس یعنی اسکولس اور کالجوں میں بھی اسکی مشق ہو رہی ہے ، اساتذہ اکرام اخلاقی اقدار پر زیادہ توجہ مبذول کرنا ضروری ہوگیا ہے بچوں میں آئے دن نت نئے ایپس جو موبائل سے حاصل ہورے ہیں جن کی وجہ سے بہت بگاڑ آرہا ہے بد زبانی ، گالی گلوج اور عريانيت کی طرف چھوٹی اور معصوم ذہنیت اب زیادہ راغب ہورہی ہے ، سرپرست ، والدین یا اساتذہ ان بری لتوں سے بچوں کو چھٹکارا دلوانے کے لئے سعی کریں یہ بھی ہمارا ایک اہم دینی مشن ہے کہ بچوں کو شیطانیت سے اللہ کی طرف یعنی راہ راست صراط مستقیم کی طرف لا نا ہے ، بری عادتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ان کو اپنے بس میں یا کنڑول میں لانے کے لئے بہتر ویسلے پیدا کریں تا کہ ذہنیت ان کی طرف متوجہ نہ ہوپائے تلاوت قرآن اور اذکار کی عادت بچوں میں ڈالیں نماز کے پابند بنائیے ، کبھی دور وسطی میں بچے اگر بڑوں کے طرف پیر کرلیتے تو فوراً ماں ٹوک دیتی تھی کہ بڑوں کو پیر بتارہے ہو لت لگے گی ، تو بہ کرلو . غلطی سے کسی کا پیراگر کھانے کے برتن کو لگ جائے تو کہتے کہ رزق کی بے حرمتی کر رہے ہو لت لگے گئ . جھوٹ مت بولو لت لگے گی، یہ چھوٹے سے لفظ میں بڑے معنى پوشیده ہیں يعنى اس کو کبھی اللہ کی طرف سے سزا کا اشاره بھی تصور کیا جاتا ہے ، لوگوں کا ايقان ہوتا تھا کہ الله تعالٰی جب کبھی ناراض ہوگا تو بندہ کو بری عادتوں میں ملوظ کردیگا ، جس کی وجہ سے وہ گمراہی کی زندگی گزارنے لگے گا . اس دور کے لوگوں کے دلوں میں خوف خدا کا جذبہ اس قدر حاوی رہتا کہ وہ الله کی رضا حاصل کرنے فوراً تو بہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ، آج ہمیں بھی ہر وقت جب کبھی بچوں سے چھوٹی یا بڑی غلطی سرزد ہو جائے تو تو بہ کی بات کرنی چاہیے اس سے بچوں میں عاجزی وانکساری کا کردار پروان چڑھتا ہے یہی نہیں ساتھ میں تکبر اور غرور جیسے غلط کردار کا خاتمہ ہو جائے گا . جب کبھی بنده سیدھا راستہ اختیار نہ کرکے نفس اماره کی طرف دوڑنے لگے گا تو سمجھ لیں کہ اسے لت لگ چکی ہے ، آج ہر بری عادت کو ہم اتنا نظر انداز کرتے آرہے ہیں کہ وہ کوئی عیب یا گناہ نہیں ہے لیکن ہمارے اسلاف لت کو کبھی بد دعا کا درجہ دیا کرتے تھے
، ہر کوئی اس لفظ کو کسی بد دعا سے کم نہیں سمجھتا اور فوراً کچھ دیر کے لئے اس پر ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، دوسرے ہی پل اپنے دونوں ہاتھوں سے دو گالوں کو تھپتھپا کر تو بہ کا اقرار کرلیتا ہے . بنده کی یہ ادا رب کو بہت پسند ہے .
اس بری عادت جس کو ہم "لت " کا نام دیتے ہیں یہ ایک منفی تاثر ہے جس کی فہرست بڑی ہے بس یوں سمجھ لیں کہ یہ معاشرتی امن اور انسانی تعاون کے مخالفت میں سرگراں رہتی ہے
لت ایک بری بلا ہے جس کسی کو کسی بری عادت کی لت لگ جائے وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو بگاڑ لیتا ہے .
   موجوده دور میں اس لت کی منظر کشی کریں گے تو سب سے زیاده اور اہم ہمیں آج کی ایجاد اسمارٹ فون میں نظر آرہی ہے جس کی لت ساری قوم کو لگ چکی ہے اس ایک چھوٹے سے آلے نے ساری سوسائٹی کو تباہ و برباد کررکھا ہے . لیکن اس میں اس آلے کا کوئی دوش نہیں ہے کیونکہ اسکا غلط استعمال تو لت کہلائے گا اگر چہ صحیح استعمال میں تو قوموں کی ترقی مضمر ہے . یہ ہمارے معاشره کی بد قسمتی ہے کہ اسکا سارا منفی اور غلط استعمال کر بیٹھے ہیں کہ جس سےایسے خوفناک اور دل دہلادینے والے اثرات اور نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں جیسے بچوں میں خود اعتمادی کا زوال ہورہا ہے ، لکنت کی بیماری داخل ہورہی ہے غصہ ، سر درد ، بینائی کا کمزور ہونا ماں باپ کی نافرمانی ، خوف گھبراہٹ، رگوں میں کمزوری ، خود کشی ، کاہلی و سستی جیسے آثار نمایاں نظر آنے لگے ہیں کہ بس اس سے متاثر ہوکر صرف ایک لفظ بڑے بزرگوں کی زبان سے بے تحاشہ ادا ہوتا ہے کہ " اسے تو دليندر فون کی لت لگ گئی ہے " یہ اجاڑ فون کون نکالا کی سب کو لت لگ گئی ہے " . شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ....

"مری جان ، آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی کر ، کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں " ... فیض احمد فیض ..
لت تو ہمیں دین سے دوری کی لگی ہے ، لت تو ماده پرستی ، ذاتی مفاد کی لگی ہے اور لت ہمیں زوال پذیر اور محتاج زندگی گزارنے کی لگی ہے ، حسد اور احساس کمتری کی لگی ہے اگر اسی طرح سے ہملت کو گلے لگا کر زندگی گزارنے لگے نگے تو یہ ہمارے سماج اور معاشره کو ظلمت کے اندھیروں اور ناکامی کے دلدل میں لے جائے گی . جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اس لئے بجائے ایسے مضر رساں آلات میں وقت برباد کرنے کے اپنے قیمتی وقت کو زندگی کی ترقی پر لگایا جائے الله کے تقوی پر لگا کر پر ہیز گاری اور سیدھی راہ پر چلیں تاکہ آئندہ کی نسلوں کے لۓ یہ لت کا سلسلہ قائم نہ رہ پائے اور راہ روشن کے ذریعہ منزل کی طرف رواں دواں ہو جائے.
"ہے امتحاں سرپر کھڑا محنت کرو ، محنت کرو
باند ھو کمر بیٹھے ہو کیا ، محنت کرو ، محنت کرو .
تدبیریں ساری کرچکے باتوں کے دریا بہہ چکے
بک بک سے اب کیا فائده ، محنت کرو ، محنت کرو " . .... محمد حسين آزاد۔۔۔۔
  زندگی کے مقصد کو سمجھنا بہت ضروری ہے آج ہمارے معاشره میں نیند کی لت ، موبائل کی لت اور باہر کے کھانوں کی لت زیاده لگ چکی ہے جس کی وجہ سے عمر میں رزق اور صحت و تندرستی اور کمائیوں میں برکت ختم ہوتی جارہی ہے . اللہ کی رضا اور اسکی خوشنودی اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل کرنا ہم سب کا اہم مقصد ہونا چاہیے جس کے لئے سیدھی ساد ھی زندگی اور اپنى فطرت میں عفوودرگزر ، صبر وتحمل ، استقامت اور نیک نیتی بردباری کے اوصاف کو قائم کرنا بے حد ضروری ہے . آج ہمیں درجہ ذیل شعر پر عمل کرنا اشد ضروری ہے ...
" میں اپنے ہاتھوں سے دن بھر مشقتیں بوکر
خوشی کی فصل اُگاتا ہوں سارے گھر کے لۓ " ... (ڈاکٹر خلیل الدین صدیقی برگ صحرا) .
فہمیدہ تبسم ،نلگنڈہ،تلنگانہ۔۔۔
روزنامہ منصف ، آئنیہ شہر 20 / جولائی 2023

Popular Posts

نساء

‎ ‎غزل ‏ ‏١٠

رباعیات ‏ ‏[امجد حیدر آبادی]